تفسیر سورت سبا

حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ الْحَکَمِ النَّخَعِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَبْرَةَ النَّخَعِيُّ عَنْ فَرْوَةَ بْنِ مُسَيْکٍ الْمُرَادِيِّ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أُقَاتِلُ مَنْ أَدْبَرَ مِنْ قَوْمِي بِمَنْ أَقْبَلَ مِنْهُمْ فَأَذِنَ لِي فِي قِتَالِهِمْ وَأَمَّرَنِي فَلَمَّا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ سَأَلَ عَنِّي مَا فَعَلَ الْغُطَيْفِيُّ فَأُخْبِرَ أَنِّي قَدْ سِرْتُ قَالَ فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَرَدَّنِي فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ ادْعُ الْقَوْمَ فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ فَاقْبَلْ مِنْهُ وَمَنْ لَمْ يُسْلِمْ فَلَا تَعْجَلْ حَتَّی أُحْدِثَ إِلَيْکَ قَالَ وَأُنْزِلَ فِي سَبَإٍ مَا أُنْزِلَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا سَبَأٌ أَرْضٌ أَوْ امْرَأَةٌ قَالَ لَيْسَ بِأَرْضٍ وَلَا امْرَأَةٍ وَلَکِنَّهُ رَجُلٌ وَلَدَ عَشْرَةً مِنْ الْعَرَبِ فَتَيَامَنَ مِنْهُمْ سِتَّةٌ وَتَشَائَمَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فَأَمَّا الَّذِينَ تَشَائَمُوا فَلَخْمٌ وَجُذَامُ وَغَسَّانُ وَعَامِلَةُ وَأَمَّا الَّذِينَ تَيَامَنُوا فَالْأُزْدُ وَالْأَشْعَرِيُّونَ وَحِمْيَرٌ وَکِنْدَةُ وَمَذْحِجٌ وَأنْمَارٌ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا أَنْمَارٌ قَالَ الَّذِينَ مِنْهُمْ خَثْعَمُ وَبَجِيلَةُ وَرُوِيَ هَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ-
ابوکریب وعبد بن حمید، ابواسامہ، حسن بن حکم نخعی، ابومیسرة نخعی، حضرت عروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کیا میں اپنی قوم کے اسلام قبول کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان لوگوں سے جنگ نہ کروں جو اسلام سے منہ موڑیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی اجازت دے دی اور مجھے اپنی قوم کا امیر بنادیا۔ پھر جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ غطیفی نے کیا کہا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ چلا گیا ہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس بلوایا۔ جب آپ صلی اللہ کے پاس پہنچا تو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دو۔ جو لوگ اسلام لے آئیں انہیں قبول کرلو اور جو نہ لائیں ان کے متعلق جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ میں دوسرا حکم دوں۔ راوی کہتے ہیں کہ سباء کی کیفیت اس وقت نازل ہوچکی تھی۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ سبا کیا چیز ہے؟ کوئی عورت یا کوئی زمین؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ زمین اور نہ عورت بلکہ یہ عرب کا ایک آدمی ہے جس کے دس بیٹے تھے جن میں سے چھ کو (اس نے) مبارک جانا اور چار کو منحوس، جنہیں منحوس جانا وہ یہ ہیں ازد، اشعری، حمیم، کندہ، مذحج اور انمار۔ ایک شخص نے پوچھا انمار کون سا قبیلہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس سے خثعم اور بجیلہ ہیں۔ یہ حدیث غریب حسن ہے۔
Sayyidina Farwah ibn Musayk al-Muradi (RA) narrated: I went to the Prophet (SAW) and said, "O Messenger of Allah! Shall I not join those people of my tribe who have embraced Islam and fight against those who turn away from it.” He gave me permission for that and he made me amir (chief) of my tribe. When I went out from him, he asked about me, “What did al-Ghutayfi do?” He was informed that I had gone away. So he sent for me. When I came to him, some of the sahabah (RA) were sitting with him. He said, “Invite the people. So, whoso submits (to Islam), welcome him and whoso does not submit (to Islam), do not hurry (about him) till I tell you something.” The narrator reported that there was a revelation about Saba and a man asked, "O Messenger of Allah, what is Saba, a land or a woman”? He said, “Neither a land nor a woman but a man who had ten Arab sons, six of whom he regarded auspicious and four inauspicious. As for those he regarded as inauspicious, they were Lakhm, Juzam, Ghassan and Aamilah and as for those he regarded as lucky they were Azd, Ash’arun, Himyar, Kindah, Mazhij and Anmar.” The man said, "O Messenger of Allah! What is Anmar”? He said, “The one from whom spring Kath’am and Bajilah.” [Abu Dawud 3988]
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَی اللَّهُ فِي السَّمَائِ أَمْرًا ضَرَبَتْ الْمَلَائِکَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ کَأَنَّهَا سِلْسِلَةٌ عَلَی صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْکَبِيرُ قَالَ وَالشَّيَاطِينُ بَعْضُهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ-
ابن ابی عمر، سفیان، عمرو، عکرمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمانوں میں کوئی حکم سناتا ہے تو فرشتے گھبراہٹ کی وجہ سے اپنے مارتے ہیں جس سے ایک زنجیر پتھر پر کھڑکانے کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور سب سے بڑا اور عالیشان ہے تیز شیطان اوپر نیچے جمع ہو جاتے ہیں (تاکہ اللہ تعالیٰ کا حکم سن سکیں) ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Abu Hurayrah (RA) reported that the Prophet (SAW) said, “When Allah decrees a command in the heaven, the angels flutter their wings in fear. This makes a sound like an iron chain being struck on stone. When that fear goes out of their hearts, they ask each other what their Lord had said. Their reply is that He spoke the truth and He is Exalted, Mighty. As for the devils, some of them (stand) above some other (that they might hear the command of Allah).” [Bukhari 4800, Abu Dawud 3989, Ibn e Majah 194]
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِذْ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا کُنْتُمْ تَقُولُونَ لِمِثْلِ هَذَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رَأَيْتُمُوهُ قَالُوا کُنَّا نَقُولُ يَمُوتُ عَظِيمٌ أَوْ يُولَدُ عَظِيمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَا يُرْمَی بِهِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَکِنَّ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ إِذَا قَضَی أَمْرًا سَبَّحَ لَهُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَائِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ حَتَّی يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ إِلَی هَذِهِ السَّمَائِ ثُمَّ سَأَلَ أَهْلُ السَّمَائِ السَّادِسَةِ أَهْلَ السَّمَائِ السَّابِعَةِ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالَ فَيُخْبِرُونَهُمْ ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَهْلُ کُلِّ سَمَائٍ حَتَّی يَبْلُغَ الْخَبَرُ أَهْلَ السَّمَائِ الدُّنْيَا وَتَخْتَطِفُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ فَيُرْمَوْنَ فَيَقْذِفُونَهُ إِلَی أَوْلِيَائِهِمْ فَمَا جَائُوا بِهِ عَلَی وَجْهِهِ فَهُوَ حَقٌّ وَلَکِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ وَيَزِيدُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رِجَالٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالُوا کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ حَدَّثَنَا بِذَلِکَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ-
نصر بن علی جہضمی، عبدالاعلی، معمر، زہری، علی بن حسین، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ستارہ ٹوٹا جس سے روشنی ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ زمانہ جاہلیت میں اگر ایسا ہوتا تھا تو کیا کہتے تھے؟ عرض کیا گیا ہم کہتے تھے کہ یا تو کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا بلکہ ہمارا رب اگر کوئی حکم دیتا ہے تو حاملین عرش (فرشتے) تسبیح کرتے ہیں پھر اس آسمان والے فرشتے جو اس کے قریب ہے۔ پھر جو اس کے قریب ہیں۔ یہاں تک کہ تسبیح کا شور اس آسمان تک پہنچتا ہے۔ پھر چھٹے آسمان والے فرشتے ساتوں آسمان والوں سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ انہیں بتاتے ہیں اور پھر ہر نیچے والے اوپر والوں سے پوچھتے ہیں یہاں تک کہ وہ خبر آسمان دنیا والوں تک پہنچ جاتی ہے اور شیاطین کان لگا کر سنتے ہیں تو اس ستارے سے انہیں مارا جاتا ہے، پھر یہ اپنے دوستوں (یعنی غیب کی خبروں کے دعویداروں) کو آکر بتاتے ہیں۔ پھر وہ جو بات اسی طرح بتاتے ہیں تو وہ صحیح ہوتی ہے لیکن وہ تحریف بھی کرتے ہیں اور اس میں اضافہ بھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور زہری سے بھی منقول ہے وہ علی بن حسین سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور وہ کئی انصاری حضرات سے اسی کی مانند نقل کرتے ہیں۔
Sayyidina lbn Abbas (RA) reported that while Allah’s Messenger (SAW) was sitting with some of his sahabah, a star shot down and there was a bright light (in the sky). Allah’s Messenger (SAW) asked, “What would you have said during the jahiliyah if such a thing had happened then)?” They said, “We would have remarked, A great man will die’ and great man will be born:” He said, “It does not shoot at the death of anyone or life of one. But when our Lord, blessed is His name and Exalted is He, decrees an affair, the bearers of the Throne hymn (His) glory. Then the dwellers of the heavens (the angels) hymn his glory, they being nearer to them, then those nearer to these (and so on) till the tasbih (glorification) resounds on the heaven. Then the angels of the sixth heaven ask those of the seventh heaven, ‘What has your Lord said?” They inform them. Then the dwellers of every heaven are informed till news goes out to the heaven above earth, and the devils try to eavesdrop, but are hit. They disclose it to their friends (the soothsayers). What they come out with is true, but they change it and add to it.’ [Ahmed 1882, Muslim 2229] --------------------------------------------------------------------------------