TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
آداب کا بیان۔
جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے۔
وعن أبي الدرداء قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن العبد إذا لعن شيئا صعدت اللعنة إلى السماء فتغلق أبواب السماء دونها ثم تهبط إلى الأرض فتغلق أبوابها دونها ثم تأخذ يمينا وشمالا فإذا لم تجد مساغا رجعت إلى الذي لعن فإن كانت لذلك أهلا وإلا رجعت إلى قائلها . رواه أبو داود-
" اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی بندہ کسی چیز یعنی کسی انسان یا غیر انسان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس لعنت پر بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ لعنت دائیں بائیں طرف جانا چاہتا ہے ، چنانچہ جب وہ کسی طرف بھی راستہ نہیں پاتی تو اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر وہ چیز اس لعنت کی اہل و سزا وار ہوتی ہے تو اس پر واقع ہو جاتی ہے ورنہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابوداؤد) تشریح اس حدیث کے ذریعہ لعنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ جس چیز کو لوگ بہت معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ہر کس وناکس پر لعنت کرتے رہتے ہیں انجام کار خود ہی اس لعنت کا شکار ہو جاتے ہیں چنانچہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت ابتداء ہی سے اس پر متوجہ نہیں ہوتی، اور یہ چاہتی ہے کہ ادھر ادھر سے ہو کر باہر نکل جائے مگر جب کسی طرف کو راستہ نہیں پاتی تو آخر کار اس پر متوجہ ہوتی بشرطیکہ وہ اس لعنت کا سزاو ار ہو اور اگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس لعنت کا سزا وار نہیں ہوتا تو پھر انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس شخص پر واقع ہو جاتی ہے جس نے وہ لعنت کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص لعنت کا واقعی مستوجب ہے اس پر لعنت نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص کا قابل لعنت ہونا شارع کی طرف سے بتائے بغیر متعین نہیں ہو سکتا۔
-
وعن ابن عباس أن رجلا نازعته الريح رداءه فلعنها . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تلعنها فإنها مأمورة وإنه من لعن شيئا ليس له بأهل رجعت اللعنة عليه . رواه الترمذي وأبو داود .-
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے ایک شخص کی چادر ہوا میں اڑ گئی تو اس نے ہوا پر لعنت کی چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا، ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو حکم کے تابع ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو اس لعنت کے قابل نہ ہو تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد) تشریح وہ تو حکم کے تابع ہے، کا مطلب یہ ہے کہ بذات خود کوئی حثییت نہیں رکھتی اور نہ کسی کی طرح کا تصرف کرنے کے قابل ہے وہ تو چلنے پر منجانب اللہ مامور کی گئی ہے اور حق تعالیٰ نے اپنی حکمتوں اور مصالح کے تحت اس کو پیدا کیا اور چلایا بس اس کا کام چلنا ہے اور وہ چلتی ہے اس صورت میں اگر اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس ہوا سے دل برداشتہ ہونا اور اس کو برا بھلا کہنا نہ صرف نہایت ناموزوں بات ہے بلکہ تقاضائے عبودیت اور استقامت کے منافی بھی ہے زمانہ کے حوادث و تغیرات اور انسان کے اپنے تابع ارادوں اور افعال کے بارے میں یہی حکم ہے کہ رنج و حادثہ کے وقت اپنے ظاہر و باطن دونوں میں قلب وبان کو اراضی و ساکت رکھے اور اگر کسی تکلیف و حادثہ کے وقت بتقاضائے بشریت اپنے اندر کوئی تغیر اور دل کو متاثر پائے تو لازم ہے کہ زبان کو قابو میں رکھے کہ اس سے شکوہ و شکایت اور اظہار رنج کا کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو مرتبہ عبودیت اور اسلامی تعلیمات و آداب کے خلاف ہو۔
-