جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کرنے والے کی مذمت

وعن المقداد بن الأسود رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رأيتم المداحين فاحثوا في وجوههم التراب . رواه مسلم . ( متفق عليه )-
" اور حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں خاک ڈال دو۔ (مسلم) تشریح۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے منہ پر تمہاری تعریف کرے اور وہ تعریف خواہ زبانی ہو یاقصیدہ ونثر کی صورت میں ہو نیز اس تعریف کرنے سے اس کا مقصد تم سے کچھ مالی منفعت حاصل کرنا یا اپنا کوئی مطلب نکالنا ہو تو تم اس کے منہ پر مٹی ڈال دو یعنی اس کو محروم رکھو نہ کہ اس کو کچھ دو اور نہ اس کا مطلب پورا کرو یا منہ میں خاک ڈالنے سے یہ مراد ہے کہ کچھ معمولی طور پردے دو کہ کسی کو بہت تھوڑا سا اور حقارت کے ساتھ دینا اس کے منہ میں خاک ڈالنے کے مشابہ ہے اور یہ معمولی طور پر دینا بھی اس مصلحت کے پیش نظر ہو کہ مبادا کچھ بھی نہ ملنے کی صورت میں وہ ہجو کرنے لگے۔ بعض علماء نے اس ارشادگرامی کو اس کے ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے چنانچہ اس حدیث کے راوی حضرت مقداد ہی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کی تعریف کرنے لگا تو انہوں نے ایک مٹھی خاک لے کر اس کے منہ پر ڈال دی علماء نے لکھا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کا حکم دینا دراصل ان تعریف کرنے والوں کوسختی کے ساتھ متنبہ کرنا ہے کہ کیوں کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے والا اپنے ممدوح کو مغرور و متکبر بنا دیتا ہے۔خطابی نے یہ لکھا ہے کہ مداحین یعنی تعریف کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خوشامد وچاپلوسی اور بے جا تعریف ومدح کرنے کو اپنی عادت بنالی ہو چنانچہ ایسے لوگ تعریف ومدح کرنے میں نہ حق وباطل کی تمیز کرتے ہیں اور نہ مستحق وغیرمستحق کالحاظ رکھتے ہیں نیز انہوں نے اس چیز کو حصول منفعت اور معاش کا ذریعہ بنا رکھا ہے کہ جس شخص سے انہیں کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے یا جس شخص سے مطلب براری کی امید ہوتی ہے وہ اس کے منہ پر نہایت مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس کی تعریف ومدح کرتے ہیں لہذا جو شخص کسی دنیاوی غرض ولالچ کے بغیر کسی قابل تعریف آدمی کی واقعی مدح وتوصیف کرے یا کسی شخص کے کسی اچھے فعل اور پسندیدہ کام پر اس نقطہ نظر سے تعریف کریں کہ اس شخص کو مزید اچھے افعال اور بھلائی کے کام کرنے کا شوق پیدا ہو نیز دوسرے لوگوں کو بھی اس کی اتباع میں نیک اعمال اور بھلائی کے کام کرنے کی رغبت ہو تو ایسے شخص پر حدیث میں مذکورہ لفظ مداح کا اطلاق نہیں ہوگا یعنی اس کو قابل مذمت اور تعریف کرنے والا نہیں کہا جائے گا۔
-
وعن أبي بكرة قال أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال ويلك قطعت عنق أخيك ثلاثا من كان منكم مادحا لا محالة فليقل أحسب فلانا والله حسيبه إن كان يرى أنه كذلك ولا يزكي على الله أحدا . متفق عليه-
" اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے ایک آدمی کی (مبالغہ آمیزی کے ساتھ) تعریف کرنی شروع کی ( اور وہ شخص جس کی تعریف کر رہا تھا وہ وہاں موجود تھا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کرنے والے سے فرمایا کہ افسوس ہے کہ تم پر تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی آپ نے یہ الفاظ تین بار دہرائے اور پھر یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف کرناضروری سمجھے تو اس کو چاہیے کہ مثلا یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے یہ گمان رکھتا ہوں کہ وہ نیک آدمی ہے جب کہ اس شخص کی حقیقی حالت سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے اور وہی ان کے اعمال کا حساب لینے والا ہے نیز اگر تعریف کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ اس نے جس شخص کی تعریف کی ہے وہ واقعتا ایساہی ہو تو اس صورت میں بھی وہ خدا کی طرف سے کسی شخص پر جزم ویقین کے ساتھ حکم نہ لگائے۔ (بخاری، مسلم) تشریح۔ کسی کی گردن کاٹنا اگرچہ اس کو ذبح کرنے اور اس کی جسمانی ہلاکت کے ہم معنی ہے لیکن یہاں " گردن کاٹنے" سے مراد روحانی ہلاکت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کی تعریف کرتا ہے توہ (ممدوح اپنی تعریف سن کر غرور و تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے لہذا جس طرح کسی کی گردن کاٹ ڈالنا اس کو دنیاوی طور پر ہلاک کر دینے کے مرادف ہے اسی طرح منہ پر کسی کی تعریف کرنا گویا اس کو دینی اور اخروی طور پر ہلاکت میں ڈال دینا ہے جب کہ یہ تعریف بسا اوقات دنیاوی طور پر بھی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی تعریف سن کر اتنا زیادہ مغرور ہوگیا کہ کسی کا ناحق خون کر ڈالے اور پھر عدالت کی طرف سے سزائے موت کامستوجب ہو کر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ " اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف ضروری سمجھے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی شخص کے اندر کوئی ایسا وصف دیکھو کہ جس کی وجہ سے وہ قابل تعریف ہو، مثلا کوئی شخص بہت زیادہ صالح ونیک ہو یا کوئی شخص بہت زیادہ خلیق ہو اور تم اس کی تعریف کرنا ہی چاہتے ہو تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ تم بس اپنے گمان کی حدتک اس کی تعریف کرو اس کے بارے میں جزم ویقین کے ساتھ فیصلہ نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ میں فلاں شخص کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں، اس جملہ کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا حقیقی حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس شخص کو بظاہر نیک و اچھا سمجھا جارہاہے ہوسکتا ہے کہ اس کے باطنی احوال سے اس درجہ کے نہ ہوں کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو، لہذا جو شخص قابل تعریف ہو اس کی تعریف میں احتیاط کی راہ اختیار کرنی چاہیے اس کے بارے بالکل آخری فیصلہ نہ کرنا چاہیے کہ یہ شخص یقینا اچھا و نیک اور خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے ہاں ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جن کو احادیث میں صراحت کے ساتھ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے اور جن کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک یقینا پسندیدہ ہیں جیسے عشرہ مبشرہ اور ان لوگوں کے علاوہ اور کسی شخص کے بارے میں اس جزم ویقین کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں شخص خدا کے نزدیک اچھاہے۔
-