جھاڑ پھونک وغیرہ توکل کے منافی

وعن المغيرة بن شعبة قال قال النبي صلى الله عليه وسلم من اكتوى أو استرقى فقد برئ من التوكل . رواه أحمد والترمذي وابن ماجه .-
اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ توکل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ ) تشریح مطلب یہ ہے کہ کسی مرض کے لئے جسم کے کسی حصہ پر داغ لینا یا کسی ضرورت و حاجب کی صورت میں جھاڑ پھونک اور تعویز گنڈے کرانا اگرچہ مباح ہے لیکن توکل اور اعتماد علی اللہ کا جو مرتبہ و مقام ہے وہ اس سے بلند و بالا ہے حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ا یت (وعلی اللہ فلیتوکل المومنین) ۔ لہٰذا اسباب و ذرائع کے اختیار کرنے میں زیادہ انہماک و رغبت گویا رب الارباب سے غافل ہو جانے کی دلیل ہے اسی لئے امام غزالی نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جانے کے لئے اپنے مکان کے دروازوں کو دو تالوں سے مقفل کرے یا ایک تالا ڈالے اور پھر اپنے پڑوسی سے بھی مکان کی حفاظت و نگرانی کے لئے کہے تو وہ توکل کے دائرے سے نکل گیا
-
وعن عيسى بن حمزة قال دخلت على عبد الله بن عكيم وبه حمرة فقلت ألا تعلق تميمة ؟ فقال نعوذ بالله من ذلك قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تعلق شيئا وكل إليه . رواه أبو داود .-
اور حضرت عیسی بن حمزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں ۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تو اسی چیز کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد ) تشریح طیبی کے قول کے مطابق بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے تعویذ باندھنے سے خدا کی پناہ چاہی تھی کیونکہ وہ مقام توکل و رضا پر فائز تھے اور انہوں نے تعویذ باندھنے کو مرتبہ کو توکل کے منافی سمجھا ۔ اگرچہ دوسروں کے لئے یہ جائز ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تعویذ باندھتا ہے یا گنڈا ڈالتا ہے اور جھاڑ پھونک وغیر جیسے عملیات کا سہارا لیتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ چیزیں فائدہ مند ہیں اور ضرر کو دفع کرتی ہیں تو اس کو اس حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور انہی چیزوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے یعنی اس کو حق تعالیٰ کی مدد اعانت سے محروم کر دیا جاتا ہے اور وہ شفا نہیں پاتا کیونکہ ذات حق تعالیٰ کے علاوہ نہ کوئی چیز فائدہ دیتی ہے اور نہ نقصان پہنچاتی ہے، گویا اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تفویض و توکل کی طرف راغب کرنا ہے ۔
-