بصرہ کے متعلق پیشنگوئی

وعن أبي بكرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ينزل أناس من أمتي بغائط يسمونه البصرة عند نهر يقال له دجلة يكون عليه جسر يكثر أهلها ويكون من أمصار المسلمين وإذا كان في آخر الزمان جاء بنو قنطوراء عراض الوجوه صغار الأعين حتى ينزلوا على شط النهر فيتفرق أهلها ثلاث فرق فرقة يأخذون في أذناب البقر والبرية وهلكوا وفرقة يأخذون لأنفسهم وهلكوا وفرقة يجعلون ذراريهم خلف ظهورهم ويقاتلونهم وهم الشهداء . رواه أبو داود-
حضرت ابوبکرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کے لوگ ایک پست زمین پر پہنچ کر قیامت پذیر ہوں گے اور اس جگہ کا نام بصرہ رکھیں گے، وہ جگہ ایک نہر کے قریب ہوگی جس کو دجلہ کہا جاتا ہوگا، اس نہر پر پل ہوگا، بصرہ میں رہنے والوں کی آباادی بہت بڑھ جائے گی اور اس کا شمار مسلمانوں کے بڑے شہروں میں ہوگا اور پھر جب زمانہ آخر ہوگا تو قنطورا کی اولاد اس شہر کے لوگوں سے لڑنے کے لئے آئے گی ، ان کے منہ چوڑے چکلے اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی، وہ لوگ نہر کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور ان کو دیکھ کر شہر کے لوگ تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک حصہ توبیلوں کی دموں اور جنگل میں پناہ حاصل کرے گا یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے سے کترا کر اپنی کھیتی باڑی کے کاموں مشغول ہوجائیں گے اور بیل وغیرہ ڈھونڈھے کا بہانہ لے کر ادھر ادھر ہوجائیں گے تاکہ دشمن کے حملے سے اپنی جان بچا سکیں یا یہ کہ وہ لوگ اپنے اہل وعیال اور مال واسباب کو جمع کر کے جنگلوں میں چلے جائیں گے تاکہ حملہ آور اور دشمن کی نقصان رسانی سے محفوظ رہیں حالانکہ وہ لوگ موت وتباہی کے گھاٹ اتر کر رہیں گے یعنی وہ اپنی اس حیلہ سازی کے باوجود دشمن کی زد سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے کیونکہ حملہ آور مشرک دشمنی اور فتنہ وفساد کی جو آگ بھڑکائیں گے وہ اس طرح کے حیلوں بہانوں سے ٹھنڈی یا محدود نہیں ہوگی اور دوسرا حصہ قنطورا کی اولاد سے اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا مگر ان لوگوں کو بھی موت اور تباہی کے گھاٹ اترنا پڑے گا اور تیسرا حصہ وہ ہوگا جو اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو پیچھے چھوڑ کر یعنی اپنے اہل وعیال سے بے پروا ہو کر اور ان کی محبت سے اپنا دامن چھڑا کر حملہ آور کے مقابلے پر ڈٹ جائے گا یا یہ کہ وہ لوگ اپنے بال بچوں کو اپنے پیچھے لے کر محاذ پر جائیں گے اور وہاں دشمنوں سے لڑیں گے اور ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبہ کو پہنچیں گے۔ (ابو داؤد) تشریح : " بصرہ" با کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اور صاد کے جزم کے ساتھ ہے ، نیز یہ لفظ صاد کے زبر اور زیرکے ساتھ بھی منقول ہے ۔ دجلہ دال کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ اس علاقہ کا مشہور دریا ہے جس کے کنارے پر شہر بغداد واقع ہے۔ حلبی نے حاشیہ شفا میں لکھا ہے کہ بصرہ کی با، زبر ، زیر اور پیش تینوں حرکتوں کے ساتھ منقول ہے نیز یہ وہ شہر ہے جس کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عتبہ بن غزوان نے آباد کیا تھا اور اس شہر میں کبھی بت پرستی نہیں ہوئی۔ حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد ہے حدیث میں جس واقعہ کی پیشگوئی فرمائی ہے اس میں صریحا بصرہ کا ذکر ہوا ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ اس سے بغداد مراد ہے اور بغداد مراد لینے کی دلیل یہ ہے کہ دریائے دجلہ کی گزرگاہ بصرہ نہیں بلکہ بغداد ہے اور اس دریا پر جس پل کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی بغداد ہی میں ہے ۔ علاوہ ازیں بغداد کا شہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس طرح کا شہر نہیں تھا جیسا کہ اب ہے بلکہ اس زمانہ میں اس جگہ منتشر طور پر کچھ قرئیے اور دیہات تھے جو بصرہ کے مضافات میں شمار ہوتے تھے اور ان کی نسبت بصرہ ہی کی طرف جاتی تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گویا معجزہ کے طور پر ، ان دیہاتی علاقوں کے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہو جانے کی پیش خبری بیان فرمائی اور بصیغہ مستقبل یہ فرمایا کہ وہ اسلامی شہروں میں سے ایک بڑا شہر ہوگا اور کثیر آبادی پر مشتمل ہوگا یہ بات محض تاویل کے درجے کی نہیں بلکہ اس کی پشت پر تاریخی دلیل بھی ہے چنانچہ تاریخ میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ترکوں نے کبھی بصرہ پر حملہ کیا ہو اور ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کشت وخون کی وہ صورت پیش آئی ہو جس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا۔ البتہ بغداد پر ترکوں (تاتاریوں) نے ضرور حملہ کیا ہے جو آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے زمانہ کا واقعہ ہے جس کی کچھ تفصیل تاریخی کتابوں سے اخذ کر کے ہم نے مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں بھی بیان کی ہے ، پس واضح ہوا کہ حدیث میں بصرہ کا ذکر محض اس سبب سے ہے کہ بغداد جسکی بہ نسبت بصرہ زیادہ قدیم شہر ہے اور وہ دیہات ومواضع کہ جہاں بغداد کی تعمیر ہوئی اور یہ عظیم شہر بنا ، بصرہ ہی کی طرف منسوب تھے اور یہ وہ بصرہ تھا جو بعد میں بھی بغداد کی شہر فصیل کے باہر ایک چھوٹی سی آبادی کی صورت میں تھا اور اس سمت شہر کے دروازہ کو اسی نام کی مناسبت سے باب البصرہ کہا جاتا تھا۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغداد کے ذکر کے لئے گویا اس شہر کے جزوی نام کے ذکر پر اکتفا فرمایا، یا یہ کہ یہاں اصل مراد تو بغداد البصرہ کا ذکر تھا مگر مضاف کو حذف کر کے صرف بصرہ کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا کہ قرآن کریم کی اس آیت (وَسْ َ لِ الْقَرْيَةَ) 12۔یوسف : 82) میں اللہ تعالیٰ نے صرف قریہ کا ذکر فرمایا ہے جب کہ اس سے مراد اہل قریہ ہیں۔ اس صورت میں حدیث کے ابتدائی جز کا حاصل یہ نکلا کہ میری امت میں سے کچھ لوگ دریائے دجلہ کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں گے اور اس جگہ کو اپنا مرکزی شہر بنائیں گے یہاں تک کہ وہ چھوٹی سی جگہ ایک ایسے شہر میں تبدیل ہو جائے گی جس کا شمار مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں اور اسلامی مراکز میں ہوگا اور یہ وہ شہر ہے جس کو بغداد کہا جاتا ہے اس موقع پر یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تاریخ میں بغداد کو جو عظمت واہمیت اور مرکزیت حاصل ہوئی اور وہ جتنا عظیم شہر بنا اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لفظ امصار استعمال فرمایا امصار اصل میں مصر کی جمع ہے اور بڑے شہر کو کہتے ہیں اس سے نیچے کی آبادیوں کو بالترتیب مدینہ ، بلدہ اور قریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ " قنطورا کی اولاد " سے مراد ترک قوم ہے ۔ اس قوم کے وارث اعلیٰ کا نام قنطورا تھا ، اس لئے پوری ترک قوم کو قنطورا کی اولاد سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ " اور دوسرا حصہ اپنی جانوں کے لئے امان طلب کرے گا " کے سلسلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس پیش گوئی کا مصداق خلیفہ مستعصم باللہ اور اس کے حوالی موالی تھے جیسا کہ مظاہر حق جدید کی پچھلی قسط میں اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے ، جب ہلاکو خان (ترکوں یعنی تاتاریوں کے سردار) نے اپنی بے امان فوج کے ساتھ بغداد پر حملہ کیا تو خلیفہ مستعصم باللہ نے اپنے لواحقین اور درباریوں کے ساتھ ہلاکو خان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اور اہل شہر کی جانوں کی امان طلب کی، لیکن کسی کو بھی امان نہیں ملی اور خلیفہ سمیت سارے لوگ ہلاک وتباہ کر دئیے گئے اور ہلاکو خان کے فوجیوں نے ایک ایک آدمی کو چن چن کر مار ڈالا۔ ایک شارح نے لکھا ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں بصرہ کے ذکر سے بغداد مراد لیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں موجودہ بغداد کا علاقہ بصرہ کے مضافاتی قریوں اور دیہات کی صورت میں تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جزوی طور پر پورے نام کا طلاق کرتے ہوئے گویا بغداد البصرہ کے بجائے صرف بصرہ کا ذکر فرمانا کافی جانا تو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری ہو چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمانے کے مطابق مسلمانوں نے دریائے دجلہ کے کنارے بغداد کا شہر بسایا، اس کو ترقی اور عظمت سے ہمکنار کیا وہ مسلمانوں کا ایک مرکزی اور بہت بڑا شہر بنا، پھر ترکوں نے حملہ کیا اور اس حملہ کے نتیجے میں اہل شہر کا تقریبا پورا حصہ ان ترکوں کے ہاتھوں کشت وخون کی نذر ہو گیا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث میں بصرہ سے مراد بغداد نہیں بلکہ بصرہ کا موجودہ شہر ہے۔، تو پھر یہ کہا جائے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذکورہ پیش گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی اور ہو سکتا ہے کہ کسی وقت آنے والے زمانہ میں اس شہر کے مسلمانوں کو مذکورہ پیش گوئی کے مطابق کسی اسلام دشمن طاقت کے حملہ وجارحیت کا شکار ہونا پڑے، کیونکہ جہاں تک پچھلے زمانہ کا تعلق ہے، تاریخ سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ بصرہ پر بھی اسلام دشمن طاقت نے اس طرح کا حملہ کیا ہو اور وہاں کے مسلمانوں کو اس طرح کشت وخون کا سامنا کرنا پڑا ہو جس طرح کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے۔ " ان میں سے اکثر مارے جائیں گے جو شہادت کے مرتبے پر پہنچیں گے" یعنی اس شہر کے مسلمانوں کا تیسرا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہوگا جو غازی مجاہد فی سبیل اللہ ہوں گے اور اس سخت طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت جان نثاری اور حوصلہ واستقامت کے ساتھ میدان میں آ جائیں گے اور قبل اس کے کہ دشمن اہل اسلام پر حاوی اور غالب ہو جائے، اس سے لڑ کر خدا کی راہ میں اپنی جان دے دیں گے، پس وہ لوگ شہید ہوں گے اور کامل شہادت کا مرتبہ پائیں گے ، ان میں سے جو لوگ زندہ بچ جائیں گے ان کی تعداد بہت تھوڑی ہوگی اس موقع پر ایک اور شارح نے کہا ہے کہ یہ حدیث گرامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کیونکہ سب کچھ اس طرح واقع ہوا جس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغداد پر ترکوں کے حملے کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ ماہ صفر ٦٥٦ھ میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس وقت تاتاری ترکوں نے ہلاکو خان کی سربراہی میں بغداد کو جس طرح تاراج کیا، مسلمانوں کا جس کثرت اور بے دردی سے خون بہایا، شہر کے محلات ومکانات حتی کہ کتب خانوں اور علمی مراکز کو جس طرح جلا کر راکھ کر دیا اور اس آگ کے شعلوں نے جس طرح پورے عالم اسلام کو متاثر وکمزور کیا وہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کی تفصیل بیان کرنے سے زبان وقلم قاصر ہیں۔
-
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يا أنس إن الناس يمصرون أمصارا فإن مصرا منها يقال له البصرة فإن أنت مررت بها أو دخلتها فإياك وسباخها وكلأها ونخيلها وسوقها وباب أمرائها وعليك بضواحيها فإنه يكون بها خسف وقذف ورجف وقوم يبيتون ويصبحون قردة وخنازير رواه أبو داود-
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا۔ انس! لوگ کچھ نئے شہر بسائیں گے اور ان شہروں میں ایک شہر کا نام بصرہ ہوگا پس اگر تم اس شہر کے پاس سے گزرو یا اس شہر میں جاؤ تو اس کے اس علاقے کے قریب بھی نہ جانا جہاں کھاری زمین ہے ، نہ ان جگہوں کے قریب جانا جن کو کلاء کہا جاتا ہے، اسی طرح وہاں کی کھجوروں ، وہاں کے بازار ، وہاں کے بادشاہوں اور سرداروں کے دروازوں سے بھی دور رہنا ، صرف اس شہر کے کنارے کے حصے میں کہ جس کو ضواحی کہا جاتا ہے پڑے رہنا، کیونکہ جن جگہوں پر جانے سے تمہیں منع کر رہا ہوں وہاں ، زمین میں دھنسا دئیے جانے، پتھر برسائے جانے اور سخت زلزلوں کا عذاب نازل ہوگا نیز ان علاقوں میں ایک ایسی قوم ہوگی جس کے افراد ایک دن رات میں عیش وراحت کی نیند سوئیں گے لیکن جب صبح اٹھیں گے تو ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہوں گی۔ تشریح " سباخ" اصل میں سبخۃ کی جمع ہے جس کے معنی اس زمین کے ہیں جو کھاری اور بنجر ہو کہا جاتا ہے کہ سباخ بصرہ کے اس علاقہ کا نام بھی ہے جہاں کی زمین کھاری اور بنجر ہے۔ اسی طرح کلاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی بصرہ کے بعض مقامات کا نام ہے۔ ضواحی ضاحیۃ کی جمع ہے جس کے معنی شہر کا کنارہ اور شہر کی نواحی بستیاں ہیں ، ویسے ضاحیۃ البصر بصرہ کی ایک نواحی بستی کا نام بھی ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ضواحی سے مراد بصرہ پہاڑ ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو بصرہ کے ضواحی میں پڑے رہنے کا جو حکم دیا وہ دراصل گوشہ نشینی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے حکم میں تھا۔ " ان کی صورتیں بندر اور سور جیسی ہونگی" یعنی وہ قوم خدا کی نافرمانی اور سرکشی اور اپنی بد اعتقادی اور عملی گمراہیوں کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا کی جائے کہ اس قوم کے جو لوگ جوان ہوں گے وہ بندر کی صورت کے اور جو بوڑھے ہوں گے وہ سور کی صورت کے ہو جائیں گے ، پس اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسخ وخسف جیسے عذاب الٰہی اس امت میں بھی جائز الوقوع ہیں کیونکہ اگر اس طرح کے عذاب کا واقع ہونا سرے سے غیر ممکن ہوتا تو ان سے ڈرانے اور ان کے واقع ہونے کی جگہوں پر جانے سے روکنا ، بالکل بے فائدہ ہوتا، اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ احادیث میں اس طرح کے عذاب کی وعید فرقہ قدریہ کے بارے میں منقول ہے اور اسی بنا پر بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں اس طرح اشارہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ مقامات فرقہ قدریہ کے لوگوں کا مسکن ہوں گے کیونکہ اس امت سے جن لوگوں پر مسخ وخسف کا عذاب نازل ہوگا وہ دراصل تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والے ہوں گے۔ لفظ کلاء کاف کے زبر اور لام کی تشدید کے ساتھ بھی منقول ہے ، اور جیسا کہ اوپر بتایا کہ گیا یہ بصرہ میں ایک مقام کا نام ہے اور ایک شارح نے کہا ہے کہ اس سے مراد بصرہ کے ساحلی علاقہ کی وہ جگہ ہے جہاں جہاز اور کشتیاں لنگر ڈالتی ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ کلاء سے مراد بصرہ کا وہ علاقہ ہے جہاں جانوروں کی چراگاہ ہے ، اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ بعض نسخوں میں یہ لفظ لام کی تشدید اور مد کے بغیر منقول ہے جس کے معنی گھاس اور سبزہ کے ہیں ایک شارح نے لکھا ہے کہ ان جگہوں پر مسخ وخسف کے عذاب کے نازل ہونے کی وجہ شاید وہاں کے لوگوں کی خباثت اور سرکشی ہوگی، اسی طرح وہاں کی کھجوروں سے دور رکھنے کا مقصد ان کھجوروں کے باغات میں جانے سے روکنا ہے کیونکہ شاید ان باغات کا ماحول اور وہاں کے اثرات دین وایمان اور عزت وآبرو کو نقصان پہنچانے کا خوف رکھتے ہوں، نیز وہاں کے بازار، دینی احکام سے غفلت ولاپرواہی یا لہو ولعب اور خرید وفروخت کے معاملات میں بے ایمانی اور وہاں کے امراء حکام کے دروازوں پر ظلم وناانصافی کے چلن کی وجہ سے ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔ واضح رہے کہ مشکوۃ کے اصل نسخے میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکوۃ کے مؤلف کو اس حدیث کے صحیح ماخذ کا علم نہیں ہوگا لیکن جزری نے اس حدیث کے ماخذ کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے رواہ ابوداؤد من طریق لم یجزم بہا الراوی بل قال لااعلم عن موسی ابن انس عن انس بن مالک یعنی اس روایت کو ابوداؤد نے ایک ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کے ایک راوی کے بارے میں انہوں نے بے یقینی کا اظہار کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس راوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جو اس سند میں داخل ہے کہا ہے کہ میں اس راوی کو نہیں جانتا ، ہاں انہوں نے اس حدیث کا راوی موسی بن انس کو ذکر کیا ہے جنہوں نے اس کو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے پس حدیث کے ماخذ اور اس کے راوی کو اس طرح سے بیان کرنا ابہام اور اشتباہ پر دلالت کرتا ہے، موسی بن مالک انصاری بصرہ کے قاضی اور تابعین میں سے ہیں۔
-