بین کر نے کی ممانعت

وعن النعمان بن بشير قال : أغمي على عبد الله بن رواحة فجعلت أخته عمرة تبكي : واجبلاه واكذا واكذا تعدد عليه فقال حين أفاق : ما قلت شيئا إلا قيل لي : أنت كذلك ؟ زاد في رواية فلما مات لم تبك عليه . رواه البخاري-
حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت عبداللہ بن رواحہ (اتنے سخت بیمار ہوئے کہ موت کے قریب پہنچ گئے اور ان پر بے ہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ نے رونا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اے پہاڑ افسوس اور اے ایسے اور ویسے یعنی ان کی خوبیاں گن گن کر بیان کرنے لگیں جب حضرت عبداللہ ہوش میں آئے تو بہن سے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے وہی مجھے بطور تنبیہ کے کہا گیا ہے تم ایسے مثلاً جب تم نے کہا کہ واجبلاہ یعنی اے پہاڑ افسوس ہے تو مجھ کہا گیا تھا کہ تم پہاڑ کیوں ہو کہ لوگ تمہاری پناہ پکڑتے ہیں ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ چنانچہ جب عبداللہ کا انتقال ہوا (یعنی غزوہ موتہ میں شہید ہوئے) تو ان کی بہن ان پر روئی نہیں۔
-
وعن أبي موسى قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " ما من ميت يموت فيقوم باكيهم فيقولك : واجبلاه واسيداه ونحو ذلك إلا وكل الله به ملكين يلهزانه ويقولان : أهكذا كنت ؟ " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب حسن-
اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے اور اس کے عزیزوں میں سے کوئی رونے والا یہ کہہ کر روتا ہے کہ اے پہاڑ اے سردار وغیر وغیرہ۔ تو اللہ تعالیٰ میت پر دو دو فرشتے مقرر کر دیتا ہے جو اس کے سینے میں مکے مار مار کر پوچھتے ہیں کیا تو ایسے ہی تھا؟ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب حسن ہے۔ تشریح میت سے حقیقت یعنی مردہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور قریب المرگ بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ میت پر رونے اور اس کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیے جانے کے بارہ میں کچھ باتیں گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہیں اس موقعہ پر بھی اس مسئلہ کے بارہ میں چند اور باتیں جانتے چلئے۔ علامہ سیوطی نے شرح الصدور میں اس حدیث امن المیت لیعذب ببکاء اہلہ (یعنی میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے) کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس بارہ میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس سلسلہ میں جتنے مسلک ہیں ان کو علامہ موصوف نے اس طرح سلسلہ وار نقل کیا ہے۔ (١) یہ حدیث اپنے ظاہر الفاظ و مفہوم کے مطابق مطلق ہے یعنی وصیت یا کافر کی قید نہیں ہے بلکہ میت پر چلا چلا کر رونے اور نوحہ کی وجہ سے میت کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بھی یہی رائے ہے۔ (٢) میت کو اس کے گھر والوں کی وجہ سے مطلقاً عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاتا (٣) عذاب کا تعلق حالت سے ہے یعنی مردہ اس وقت عذاب میں مبتلا ہوتا ہے جب کہ اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہوتے ہیں اور وہ عذاب ان کے رونے کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ مردہ کے اپنے گناہوں اور برے اعمال کی وجہ سے ہوتا ہے (٤) یہ حدیث مخصوص طور پر کافروں کے بارہ میں ہے یہ دونوں اقوال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہیں۔ (٥) یہ حدیث اور یہ وعید خاص طور پر اس شخص کے بارہ میں ہے جس کے یہاں نوحہ کا رسم و رواج ہو، امام بخاری کا یہی مسلک ہے۔ (٦) یہ حدیث اس شخص کے بارہ میں ہے جو نوحہ کے لیے وصیت کر جائے یعنی جو شخص اپنے وارثوں سے کہہ جائے کہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کیا جائے تو اسے اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسی کا فعل ہے۔ (٧) یہ وعید اس شخص کے بارہ میں ہے جو نوحہ نہ کرنے کی وصیت نہ کر جائے، چنانچہ جس شخص کو اپنے گھر والوں کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ میرے مرنے کے بعد نوحہ کریں گے تو اسے اپنے گھر والوں کو نوحہ نہ کرنے کی وصیت کرنا واجب ہو گا۔ (٨) میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اس وقت عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے جب کہ وہ میت کی ان باتوں کو بیان کر کے روئیں جو شرعی طور پر فی نفسہ بری اور انتہائی قابل نفرین ہو جسا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مر جاتا تھا تو لوگ یہ کہہ کہہ کر روتے تھے کہ اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے، اے اولاد کو یتیم کرنے والے، اے گھر کو خراب کرنے والے، (٩) عذاب سے مراد اہل میت کے مذکورہ بالا طریقہ سے بیان کر کے رونے کی وجہ سے میت پر ملائکہ کا غصہ ہونا ہے۔ (١٠) اہل میت جب نوحہ کرتے ہیں تو میت اپنی قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کی جاتی ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ عذاب سے مراد یہ ہے کہ جب اہل میت غلط طریقہ سے روتے ہیں اور اس بارہ میں غیر شرعی روش اختیار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سے میت کو شدید روحانی اذیت پہنچتی ہے اور اسے رنج ہوتا ہے جیسا کہ جب عالم برزخ میں دنیا سے کوئی روح آتی ہے اور وہاں پہلے سے موجود روحیں اس سے اپنے اعزہ کے متعلق پوچھتی ہیں اگر کسی روح کو اپنے متعلقین کے بارہ میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ برے اعمال اور گناہوں میں مبتلا ہیں تو اس روح کو رنج ہوتا ہے اور اگر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلقین نیکی اور بھلائی کی راہ پر گامزن ہیں تو اسے خوشی ہوتی ہے۔ بہر حال مسئلہ کی پوری بحث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر میت اس گناہ کا خود سبب ہو گا یعنی وہ اگر مرنے سے پہلے یہ وصیت کر جائے کہ میری میت پر نوحہ کیا جائے چلا چلا کر رویا جائے یا یہ کہ وہ وصیت تو نہ کر جائے مگر ان امور سے خوش و راضی ہوتا ہو تو اس صورت میں حدیث میں مذکورہ عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول ہو گا بایں طور کہ اگر میت پر اہل میت نوحہ وغیرہ کریں گے تو اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اگر یہ صورت نہ ہو یعنی نہ تو میت نے وصیت کی ہو اور نہ وہ ان باتوں کو پسند کرتا ہو تو اس شکل میں عذاب اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہو گا بلکہ رنج اٹھانے پر محمول ہو گا خواہ یہ رنج اٹھانا حالت نزع میں ہو یا موت کے بعد نیز خواہ کافر ہو خواہ مسلمان اس بارہ میں سب برابر ہیں اس طرح اس آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 35۔فاطر : 18) اور ان احادیث کے درمیان جو کہ اس بارہ میں میں مطلق منقول ہوئی ہیں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔
-