نماز کا بیان

--
لغت میں " صلوٰۃ" دعا کو کہتے ہیں ۔ اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ چند مخصوص اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کی ابتداء تکبیر سے اور انتہاء سلام پر ہوتی ہے۔ صلوٰۃ کے مادہ اشتقاق کے بارے میں کئی اقوال نقل کئے جاتے ہیں۔ نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صلوٰۃ کا مادہ اشتقاق " صلوین" ہے جو سرین کی دونوں ہڈیوں کو کہتے ہیں چونکہ نماز میں ان دونوں ہڈیوں کی رکوع و سجود کے وقت زیادہ حرکت ہوتی ہے اس لیے اس مناسبت سے نماز کو صلوٰۃ کہا گیا ہے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں" صلوٰۃ" مصلی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹیڑھی لکڑی کو آگ سے سینک کر سیدھا کرنا چنانچہ نماز کو صلوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کے مزاج میں نفس امارہ کی وجہ سے ٹیڑھا پن ہے لہٰذا جب کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے ۔ تو رب قدوس کی عظمت و ہیبت کی گرمی جو اس عبادت میں انتہائی قرب خداوندی کی بناء پر حاصل ہوتی ہے اس کے ٹیٹرھے پن کو ختم کر دیتی ہے گویا مصلی یعنی نمازی اس مادہ اشتقاق کی رو سے اپنے نفس امارہ کو عظمت خداوندی اور ہیبت زبانی کی تپش سے سینکنے والا ہوا۔ لہٰذا جو آدمی نماز کی حرارت سے سینکا گیا اور اس کا ٹیڑھا پن نماز کی وجہ سے دور کیا گیا تو اس کو آخرت کی آگ یعنی دوزخ سے سینکنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو جس نے دنیا میں نماز کی پابندی کی اور کوئی ایسا فعل نہ کیا جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہو تو اسے جہنم کی آگ میں نہ ڈالے گا۔ اس اصطلاحی تعریف کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ نماز اسلام کا وہ عظیم رکن اور ستون ہے جس کی اہمیت و عظمت کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ اثر منقول ہے کہ : " جب نماز کا وقت آتا تو ان کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ لوگوں نے پوچھا کہ، امیر المومنین ! آپ کی یہ کیا حالت ہے ؟ فرماتے ہیں کہ اب اس امانت ( یہ اشارہ ہے اس آیت قرآنی کی طرف : آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّه كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا) 33۔ الاحزاب : 72) کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، پہاڑوں اور زمین پر پیش فرمایا تھا اور وہ سب اس امانت کے لینے سے ڈر گئے اور انکار کر دیا۔" (احیاء العلوم) نماز کی تاکید اور اس کے فضائل سے قرآن مجید کے مبارک صفحات مالا مال ہیں، نماز کو اداء کرنے اور اس کی پابندی کرنے کے لیے جس سختی سے حکم دیا گیا ہے وہ خود اس عبادت کی اہمیت و فضیلت کی دلیل ہے۔ ایمان کے بعد شریعت نے سب سے زیادہ نماز ہی پر زور دیا ہے چنانچہ قرآن کریم کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائے۔ آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا) 4۔ النساء : 103) " بے شک ایمان والوں پر نماز فرض ہے وقت مقرر پر۔" آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ : 238) " نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز (عصر) کی پابندی کرو۔" آیت ( اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ) 11۔ہود : 114) " بے شک نیکیاں (یعنی نمازیں) برائیوں کو معاف کرا دیتی ہیں۔" آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَا ءِ وَالْمُنْكَرِ ) 29۔ العنکبوت : 45) " بے شک نماز برے اور خراب کاموں سے انسان کو بچاتی ہے ۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر کا بڑا مرتبہ بڑا ثر ہے۔" بہر حال ! نماز ایک ایسی پسند اور محبوب عبادت ہے جس کی برکتوں اور سعادتوں سے خداوند کریم نے کسی بھی نبی کی شریعت کو محروم نہیں رکھا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام رسولوں کی امت پر نماز فرض تھی۔ ہاں نماز کی کیفیت اور تعینات میں ہر امت کے لیے تغیر ہوتا رہا۔ سرکار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر ابتدائے رسالت میں دو وقت کی نماز فرض تھی ایک آفتاب کے نکلنے سے قبل اور ایک آفتاب ڈوبنے سے بعد۔ ہجرت سے ڈیڑھ برس پہلے جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا عظیم و افضل ترین شرف پایا تو اس مقدس اور با سعادت موقعہ پر پانچ وقت کی نماز کا عظیم و اشرف ترین تحفہ بھی عنایت فرمایا گیا۔ چنانچہ فجر، ظہر، مغرب، عشاء ان پانچ وقتوں کی نماز کا فریضہ صرف اسی امت کی امتیازی خصوصیت ہے اگلی امتوں پر صرف فجر کی نماز فرض تھی نیز کسی پر ظہر کی اور کسی پر عصر کی۔ اسلام کی تمام عبادات میں صرف نماز ہی وہ عبادت ہے جس کو سب سے افضل اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ چنانچہ اس پر اتفاق ہے کہ نماز اسلام کا رکن اعظم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کا دارومدار اسی عبادت پر ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ہر مسلمان عاقل بالغ پر ہر روز پانچ وقت نماز پڑھنا فرض عین ہے امیر ہو یا فقیر، تندرست ہو یا مریض اور مقیم ہو یا مسافر ہر ایک کو پانچوں وقت ان آداب و شرائط اور طریقوں کے ساتھ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے نماز کے سلسلہ میں بتائے ہیں اللہ کے دربار میں حاضری دینا اور رب قدوس کی عظمت و بڑائی اور اپنی بے کسی و لاچاری اور عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ جب میدان کار زار میں جنگ کے شعلے بھرک رہے ہوں اور عورت سب سے زیادہ اور شدید تکلیف درد زہ میں مبتلا ہو تب بھی نماز کو چھوڑنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کی ادائیگی میں دیر کر نے کی بھی اجازت نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کسی عورت کے بچے کی پیدائش کے وقت بچے کا کوئی جزو نصف سے کم اس کے خاص حصے سے باہر آگیا ہو خواہ خون نکلا ہو یا نہ نکلا ہو اس وقت بھی اس کو نماز پڑھنے کا حکم ہے اور نماز میں توقف کرنا جائز نہیں ہے جو آدمی نماز کی فرضیت سے انکار کرے وہ کافر ہے اور اس کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق و فاجر ہے بلکہ بعض جلیل القدر صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے ہیں امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے امام شافعی و امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نماز چھوڑنے کو گردن زنی قرار دیتے ہیں ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اگرچہ اس کے کفر کے قائل نہیں تاہم ان کے نزدیک بھی نماز چھوڑنے والے کے لیے سخت تعزیر ہے۔ مصنف نے یہاں " کتاب الصلوٰۃ" کے نام سے جو عنوان قائم فرمایا ہے اس کے تحت نماز سے متعلق وہ تمام احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے نماز کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور نماز کے جو احکام و فضائل ہیں ان کا استنباط ہوتا ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلصَّلَوٰتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِوَرَمَضَانُ اِلٰی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ لِّمَا بَےْنَھُنَّ اِذَا اجْتُنِبَتِ الْکَبَائِرُ۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے ہیں۔" (صحیح مسلم) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھے، جمعہ کی نماز پورے آداب کے ساتھ ادا کرے اور اسی طرح رمضان کے روزے رکھے تو ان کے درمیان جو صغیرہ گناہ صادر ہوئے ہیں سب ختم ہو جاتے ہیں البتہ کبیرہ گناہ نہیں بخشے جاتے ہاں اگر اللہ چاہے تو وہ کبرہ گناہ بھی معاف فرما سکتا ہے۔ یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوتا ہے کہ جب ہر روز کی پانچوں وقت کی نمازیں ہی تمام گناہ مٹا دیتی ہیں تو پھر یہ جمعہ وغیرہ کون سے گناہ ختم کرتے ہیں؟ چنانچہ اس خلجان کو رفع کرنے کے لیے ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان سب میں گناہوں کو مٹانے اور ختم کرنے کی صلاحیت ہے چنانچہ اگر گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو یہ تینوں ان کو مٹا دیتے ہیں ورنہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے بے شمار نیکیاں لکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ تینوں صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک کسی گناہ کے لیے کفارہ بن سکے تو دوسرا کفارہ ہو جاتا ہے مثلاً نماز میں کسی تقصیر اور نقصان کی وجہ سے اگر وہ نماز گناہوں کے لیے کفارہ نہ ہو سکے تو ان کو جمعہ ختم کر دیتا ہے اور جمعہ میں بھی کسی تقصیر کی وجہ سے کفارہ ہونے کی صلاحیت نہ رہے تو پھر رمضان ان کے لیے کفارہ ہو جاتا ہے اور اگر سب کے سب کفارہ بننے کی صلاحیت رکھیں تو یہ سب مل کر گناہوں کو اچھی طرح مٹا دیتے ہیں اور کفارے کی زیادتی کا باعث ہوتے ہیں چنانچہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کئی چراغوں کی۔ اگر کسی مکان میں ایک چراغ ہوگا تو اندھیرا تو ختم ہو جائے گا مگر روشنی کم ہوگی اور اگر چراغ زیادہ ہوں گے تو نور اور روشنی حیثیت سے زیادتی ہوگی۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَرَأَےْتُمْ لَوْ اَنَّ نَھْرًا بِبَابِ اَحَدِکُمْ ےَغْتَسِلُ فِےْہِ کُلَّ ےَوْمٍ خَمْسًا ھَلْ ےَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَےْی ءٌ قَالُوْا لَا ےَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَےْی ئٌقَالَ فَذَالِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ےَمْحُوا اللّٰہُ بِھِنَّ الْخَطَاےَا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا، تم بتاؤ کہ جس کے دروازے کے آگے پانی کی نہر چلتی ہو اور وہ روز اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر میل کا کوئی شائبہ بھی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ نہیں ! میل بالکل باقی نہیں رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم سمجھ لو کہ) پانچوں نمازوں کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام (صغیرہ) گناہوں کو ان نمازوں کے سبب سے اسی طرح مٹا دیتا ہے (جس طرح پانی میل کو اتار دیتا ہے) ۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
-
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ اِنَّ رَجُلًا اَصَابَ مِنِ امْرَاَۃٍ قُبْلَۃً فَاَتَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرَہُ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی ''وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّےْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ ےُذْھِبْنَ السَّےِّئَاتِ '' (پ ١٢ رکوع ١٠) فَقَال الرَّجُلُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلِیْ ھٰذَا ؟قَالَ لِجَمِےْعِ اُمَّتِیْ کُلِّھِمْ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِّمَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ اُمَّتِیْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی (غیر) عورت کا بوسہ لے لیا پھر (احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صورت واقعہ کی خبر دی (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ وحی کے ذریعہ حکم خداوندی کے منتظر رہے اس اثناء میں اس آدمی نے نماز پڑھی جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ ) 11۔ہود : 114) اور نماز کو دن کے وقت اول و آخر اور رات کی چند ساعات میں پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں (یعنی نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حکم میرے لیے ہے ( یا پوری امت کے لیے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " (نہیں ! یہ حکم) میری امت کے لیے ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب اس طرح مذکور ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) میری امت میں سے جو آدمی اس آیت پر عمل کرے اس کے لیے (یہی حکم ہے، یعنی جو آدمی بھی برائی کے بعد بھلائی کرے گا اسے یہی سعادت حاصل ہوگی کہ اس بھلائی کے نتیجے میں اس کی برائی ختم ہو جائے گی)۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح جس صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر عورت کا بوسہ لے لیا تھا ان کا نام ابوالیسر تھا۔ جامع ترمذی نے ان کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود راوی ہیں کہ، میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لیے آئی میں نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ اچھی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں ( اس لیے تم وہاں چل کر دیکھ لو ) چنانچہ وہ میرے ہمراہ مکان میں آگئی (وہاں میں شیطان کے بہکانے میں آگیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر ) اس اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا۔ اس نے (میرے اس غلط اور نازیبا رویے پر مجھے تنبیہ کرتے ہوئے ) کہا کہ بندہ خدا! اللہ (کے قہر و غضب ) سے ڈرو چنانچہ (خوف خدا سے میرا دل تھرا گیا اور ) میں نہایت ہی شرمندہ و شرمسار ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ بارگاہ رسالت میں ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ آیت کریمہ میں طرفی النھار یعنی دن کے اول و آخر سے دن کا ابتدائی حصہ اور انتہائی حصہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن کے اول یعنی ابتدائی حصہ سے فجر کی نماز اور آخری حصہ سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں اسی طرح زلفا من الیل یعنی رات کی چند ساعتوں سے مغرب و عشاء کا وقت مراد ہے ۔ اس طرح اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا " فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں (نمازیں) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔"
-
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَصَبْتُ حَدًّا فَاَقِمْہُ عَلَیَّ قَالَ وَلَمْ ےَسْئَلْہُ عَنْہُ وَحَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَصَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّا قَضَی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم الصَّلٰوۃَ قَامَ الرَّجُلُ فَقَالَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَصَبْتُ حَدًّا فَاَقِمْ فِیَّ کِتَابَ اللّٰہِ قَالَ اَلَےْسَ قَدْ صَلَّےْتَ مَعَنَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ غَفَرَ لَکَ ذَنْبَکَ اَوْحَدَّکَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر حد جاری فرمائیے" راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا اور نماز کا وقت آگیا۔ اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! مجھ سے ایک ایسا فعل سرزد ہوگیا ہے جو مستوجب حد ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بارے میں اللہ کا حکم نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ؟ اس نے کہا کہ جی ہاں! پڑھی ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تمہاری خطاء یا فرمایا کہ تمہاری حد بخش دی ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھئے کہ اس آدمی کے الفاظ اَصَبْتُ حَدًّا (یعنی مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے کبیرہ گناہ مثلا ًچوری وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا جس پر حد واجب ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وجہ سے اس کی بخشش کی خوشخبری سنا دی لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ صغیرہ سرزد ہو گیا تھا جو حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا جس پر حد جاری ہوتی لیکن چونکہ وہ آدمی " صحابیت" جیسے مرتبہ پر فائز تھے جہاں معمولی سا گناہ بھی خوف خداوندی سے دل کو لرزاں کر دیتا ہے اور ایک ہلکی سی معصیت بھی قلب و دماغ کے ہر گوشہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس لیے انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ مجھ سے ایک فعل سرزد ہو گیا ہے ۔ جس پر از روئے شریعت حد جاری ہو جائے گی لہٰذا انہوں نے بارگاہ رسالت میں آکر اس طرح ذکر کیا جس سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ان سے واقعی کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے جو سخت ترین سزا یعنی حد کا مستوجب ہے ۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ حد سے ان کی مراد تعزیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے اس کے گناہ کی حقیقت اس لیے دریافت نہیں فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا تھا کہ اس آدمی نے کس قسم کا گناہ کیا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس گناہ کی بخشش کی جو خوشخبری دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اس کا گناہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر حد جاری کی جائے بلکہ ایسا گناہ ہے جو نماز کے ذریعے معاف ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ خوشخبری سنا دی۔
-
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَالَ اَلصَّلٰوۃُ لِوَقْتِھَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ ؟قَالَ بِرُّ الْوَالِدَےْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِھِنَّ وَلَوِاسْتَزَدْتُّہُ لَزَادَنِیْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم-
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " وقت پر نماز پڑھنے" (یعنی وقت مکروہ میں نماز نہ پڑھی جائے) میں نے کہا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ماں باپ کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا " میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ کی راہ میں جہاد کرنا " عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی باتیں بیان فرمائی تھیں اگر میں کچھ زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ بیان فرماتے ۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح اتنی بات معلوم ہونی چاہئے کہ بہترین و افضل اعمال کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، چنانچہ اس حدیث سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب اعمال یہ تین ہیں مگر دوسری حدیثوں میں مذکور ہے کہ اسلام کے بہترین و افضل اعمال یہ ہیں کہ (غریبوں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے۔ اسلام کی تبلیغ کی جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ آرام سے بستروں میں پڑے خواب شیریں سے ہمکنار ہوں اللہ کی عبادت کی جائے اور نماز پڑھی جائے۔ اسی طرح بعض احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہترین و افضل عمل یہ ہے کہ لوگ تمہاری زبان اور تمہارے ہاتھ (کی ایذا) سے محفوظ رہیں۔ نیز بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل ترین عمل اللہ کا ذکر کرنا ہے۔ بہر حال اسی طرح دوسری احادیث میں دیگر اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اعمال بہترین و افضل ہیں۔ تو۔ اب ان تمام احادیث میں تطبیق اسی طرح ہوگی کہ یہ کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی رضا و رغبت اور اس کے مزاج کے مطابق جواب دیا ہے یعنی جس نے بہترین عمل کے بارے میں سوال کیا اس کو وہی عمل بتایا جسے اس کے لائق سمجھا اور جو اس کی فطرت و مزاج اور اس کے حال کے مناسب معلوم ہوا۔ چنانچہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم اکثر کسی خاص چیز کے بارے میں کسی وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز تو سب سے اچھی ہے حالانکہ دل کے اندر اس کی اچھائی و فضیلت کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ چیز ہمہ وقت اور ہر حال میں نیز ہر ایک کے لیے سب سے اچھی اور افضل ہوگی بلکہ دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ چیز اس خاص وقت میں اچھی اور بہتر ہے نہ کہ ہمہ وقت مثلاً خاموشی اور سکوت کا معاملہ ہے کہ جہان مناسب ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ سکوت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے یا خاموشی سے افضل کوئی چیز نہیں ہے غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک عمل کو حال اور مقام کے مناسب افضل فرمایا ہے ۔ مثلاً ابتدائے اسلام میں جہاد ہی لوگوں کے حال مناسب تھا اس لیے جہاد کو فرمایا کہ یہ سب سے بہتر عمل ہے یا اسی طرح کسی آدمی کو یا کسی جماعت کو بھوکا ننگا دیکھا تو ان کی امداد و اعانت کی خاطر صدقہ خیرات کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی اور فرمایا کہ صدقہ افضل ترین عمل ہے یا نماز کو باری تعالیٰ کے قرب حقیقی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سب سے اچھا اور بہتر عمل قرار دیا ۔ بہر حال۔ ان میں سے ہر ایک عمل کو افضل ترین عمل کہنے کی وجوہ اور حیثیات مختلف ہیں۔ ہر ایک کی وجہ اور حیثیت اپنی اپنی جگہ دوسرے سے افضل و اعلیٰ ہے۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَےْنَ الْعَبْدِ وَبَےْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔(صحیح مسلم)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کا چھوڑنا بندہ مومن اور کفر کے درمیان (کی دیوار کو گرا دیتا ) ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح یہاں لفظ بین کا متعلق محذوف ہے یعنی اس حدیث میں یہ عبارت مقدر ہے کہ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ وُصْلَۃٌ بِیْنَ الْعَبْدِ الَمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ مومن اور کفر کے درمیان نماز بمنزلہ دیوار کے ہے کہ بندہ اسکی وجہ سے کفر تک نہیں پہنچ سکتا مگر جب نماز ترک کر دی گئی تو گویا درمیان کی دیوار اٹھ گئی لہٰذا نماز چھوڑنا اس بات کا سبب ہوگا کہ نماز چھوڑنے والا مسلمان کفر تک پہنچ جائے گا۔ بہر حال۔ اس حدیث میں نماز چھوڑنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ نماز کا چھوڑنے والا ممکن ہے کہ کافر ہو جائے کیونکہ جب اس نے اسلام و کفر کے درمیان کی دیوار کو ختم کر دیا گویا وہ کفر کی حدتک پہنچ گیا ہے اور جب وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ یہی ترک نماز اس کو فسق و فجور اور اللہ سے بغاوت و سرکشی میں اس حد تک دلیر کر دے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل ہو جائے۔ یہ شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ تارک نماز کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں چنانچہ اصحاب ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ تارک صلوۃ کافر ہو جاتا ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑنے والا اگرچہ کافر نہیں ہوتا مگر وہ اس سرکشی و طغیانی کے پیش نظر اس قابل ہے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو آدمی نماز چھوڑ دے اس کو اس وقت تک جب تک کہ نماز نہ پڑھے مارنا اور قید خانہ میں ڈال دینا واجب ہے۔
-
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخَمْسُ صَلَوَاتٍ اِفْتَرَضَھُنَّ اﷲُ تَعَالٰی مَنْ اَحْسَنَ وُضُوْ ئَھُنَّ وَصَلَّاھُنَّ لِوَقْتِھِنَّ وَاَتَمَّ رُکُوْعَھُنَّ وَخُشُوْعَھُنَّ کَانَ لَہ، عَلَی اﷲِ عَھْدٌ اَنْ یَّغْفِرْ لَہُ وَمَنْ لَمْ یَفْعَلْ فَلَیْسَ لَہ، عَلَی اﷲِ عَھْدٌ اِنْ شَآءَ غَفَرَلَہ، وَاَنْ شَآءَ عَذَّبَہ،۔ (رواہ احمد بن حنبل و ابوادؤد و روی مالک والنسائی )-
" حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس آدمی نے ان پانچوں نمازوں کے لیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے (فرائض و مستحبات کی ادائیگی کے ساتھ) اچھی طرح وضو کیا اور ان کو وقت پر پڑھا نیز ان میں رکوع و خشوع کیا (یعنی نمازیں حضوری قلب کے ساتھ پڑھیں ) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر ذمہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ) یہ ہے کہ وہ اس کے (صغیرہ) گناہ بخشش دے گا اور جس آدمی نے ایسا نہ کیا (یعنی اس نے مذکورہ بالا طریقے سے یا مطلق نماز نہ پڑھی) تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں ہے چاہے تو بخش دے چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔" (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، مالک، سنن نسائی ) تشریح یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں بھی یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کو عذاب دے بلکہ اس کا دارومدار سراسر اس کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چاہے تو عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخشش دے۔ اسی طرح یہ بھی جان لیجئے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ کے حکم سے اسے جس مدت کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے بعد وہ اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو جائے گا۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔
-
وَعَنْ اَبِی اَمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَھْرَکُمْ وَادُّوْازَ کَاۃَ اَمْوَالِکُمْ وَاطِیْعُوْاذَا اَمْرِکُمْ تَدْ خُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ۔ (رواہ احمد بن حنبل والترمذی)-
" اور حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ (مسلمانو) پانچوں وقت اپنی نمازیں پڑھو اپنے (رمضان کے مہینے) کے روزے رکھو! اپنے مال کی زکوۃ دو! اور اپنے سردار کی (جب تک کہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ کرے) اطاعت کرو! (اگر ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے (یعنی بہشت میں بلند درجات کے حقدار بنو گے)۔" (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ) تشریح سردار سے مراد بادشاہ، امیر اور حاکم ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بادشاہ اور امراء کے احکام کی تابعداری اور ان کے فرمان کی اطاعت کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ حکم اسی وقت تک رہے گا ۔ جب تک کہ ان کا کوئی حکم حدود و شریعت سے باہر اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف نہ ہو، اگر ایسا ہو کہ امراء اور سلاطین حدود شریعت سے تجاوز کر کے غلط احکام دیں یا ایسے فرمان نافذ کریں جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں تو پھر نہ صرف یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں ہے بلکہ ایسے سلاطین و امراء کو راہ راست پر لانے اور ان کو قرآن و سنت کو بتائے ہوئے راستوں پر چلنے اور ملک و قوم کو چلانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ یا پھر " سردار" سے مراد علماء ہیں کہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے علم کے حامل جب مسلمانوں کو کوئی شرعی حکم دیں اور انہیں دین و شریعت کی طرف بلائیں تو ان کی پیروی ہر ایک مسلمان پر ضروری اور لازم ہے اسی طرح " سردار" سے ہر وہ آدمی مراد ہو سکتا ہے جو کسی کام کے لیے حاکم اور کار ساز مقرر کیا گیا ہو یعنی اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو اپنے کسی معاملہ میں حاکم اور راہبر مقرر کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حاکم یا راہبر کے مشوروں کو مانے اور وہ جو صحیح حکم دے اس کی پابندی کرے۔
-
وَعَنْ عَمْرِوْ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرُوْا اَوْلَادَ کُمْ بِالصَّلٰوۃِ وَھُمْ اَبْنَآءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْ ھُمْ عَلَیْھَا وَ ھُمْ اَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَ فَرِّ قَوْ ا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ کَذَا رَوَاہُ فِی شَرْحِ السُّنَّۃِ عَنْہُ وَفِی الْمَصَابِیْحِ عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ۔-
" اور حضرت عمرو ابن شعیب رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (تو نماز چھوڑ نے پر ) انہیں مارو۔ نیز ان کے بسترے علیحدہ کردو (ابوداؤد) اسی طرح السنہ میں عمرو سے اور مصابیح میں سبرہ ابن معبد سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔" تشریح اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب ان کے بچے سات برس کے ہو جائیں تو اسی وقت سے ان کو نماز کی تاکید شروع کر دی جاے تاکہ انہیں نماز کی عادت کم سنی سے ہی ہو جاے اور جب وہ بالغ ہونے کے قریب (یعنی دس سال کی عمر میں ) پہنچ جائیں تو اگر وہ کہنے سننے کے باوجود نماز نہ پڑھیں تو انہیں تاکیدا مار مار کر نماز پڑھانی چاہئے۔ نیز جس طرح ان عمروں میں نماز کی تاکید کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح انہیں نماز کی شرائط وغیرہ بھی سکھانی چاہئے تاکہ انہیں ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو جائے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اس عمر میں پہنچ جائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ سلانا چاہئے یعنی اگر دو بھائی بہن یا دو اجنبی لڑکا لڑکی ایک ہی بستر میں سوتے ہوں تو اس عمر میں ان کے بستر الگ کر دینے چاہیں تاکہ وہ اکٹھے نہ سو سکیں۔
-
وَعَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْعَھْدُا الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ اَلصَّلَاۃُ فَمَنْ تَرَکَھَا فَقَدْ کَفَرَ۔ (رواہ احمد بن حنبل والترمذی والنسائی و ابن ماجۃ)-
" اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جس نے نماز چھوڑی وہ کافر ہو گیا۔ (احمد ۔ترمذی نسائی و ابن ماجہ) تشریح اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان امن و امان کا جو معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم انہیں قتل نہیں کرتے ، اور اسلام کے احکام ان پر نافذ نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے، جماعت میں حاضر ہونے اور اسلام کے دوسرے ظاہری احکام کی تابعداری کرنے کے سبب سے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا جس نے نماز کو جو تمام عبادتوں میں سے افضل ترین ہے ترک کر دیا گویا کہ وہ کافر کے برابر ہو گیا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نماز ترک کر کے کفر کو ظاہر نہ کریں۔ اس طرح اس جملے فَقَدْ کَفَرَ کے معنی یہ ہوئے کہ (جس نے نماز چھوڑ دی) اس نے کفر کو ظاہر کر دیا۔
-
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ عَالَجْتُ امْرَاَۃً فِیْ اَقْصَی الْمَدِےْنَۃِ وَاِنِّیْ اَصَبْتُ مِنْھَا مَا دُوْنَ اَنْ اَمَسَّھَا فَاَنَا ھٰذَا فَاقْضِ فِیَّ مَا شِئْتَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ لَقَدْ سَتَرَکَ اللّٰہُ لَوْسَتَرْتَ عَلٰی نَفْسِکَ قَالَ وَلَمْ ےَرُدَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلمعَلَیْہٖ شَےْئًا وَّقَامَ الرَّجُلُ فَانْطَلَقَ فَاَتْبَعَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلًا فَدَعَاہُ وَتلَاَ عَلَےْہِ ھٰذِہِ الْاٰےَۃَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّےْلِ اِنَّ الْحَسَنَاتِ ےُذْھِبْنَ السَّےِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِےْنَ (پ ١٢ رکوع ١٠)فَقَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ ےَا نَبِیَّ اللّٰہِ ھٰذَالَہُ خَآصَّۃً فَقَالَ بَلْ لِّلنَّاسِ کَآفَّۃً۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت کو گلے لگا کر سوائے صحبت کے اور سب کچھ کر لیا ہے، (یعنی صحبت تو نہیں کی لیکن بوس و کنار ہو گیا ہے اس لیے) میں حاضر ہو گیا ہوں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں میرے بارے میں حکم فرمائیں ۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے جو سزا بھی تجویز فرمائیں گے مجھے منظور ہو گی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (جو اس وقت مجلس نبوی میں حاضر تھے یہ سن کر) فرمایا اللہ نے تو تمہارے عیب کی پردہ پوشی فرمائی تھی اگر تم بھی اپنے عیب کو چھپا لیتے تو (اچھا تھا) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کے حکم کے انتظار میں) اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چنانچہ وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلانے کے لیے ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا لایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّ يِّاٰتِ) 11۔ہود : 114) دن کے اول و آخر اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ نصیحت، نصیحت ماننے والوں کے لیے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا یہ حکم خاص طور پر اسی کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں : سب لوگوں کے لیے یہی حکم ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح اسی باب کی پہلی فصل کی تیسری حدیث میں بھی اس آیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ دن کے اول سے فجر اور آخر سے ظہر و عصر مراد ہیں اسی طرح،" رات کی چند ساعتوں" سے مراد مغرب و عشاء ہیں۔ حضرت ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ پہلی فصل میں اسی طرح کی جو حدیث نمبر تین گزری ہے وہ تو ایک آدمی (ابوالیسر) کا واقعہ ہے اور یہ حدیث جو یہاں ذکر کی گئی ہے یہ کسی دوسرے صاحب کا واقعہ ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت بھی اس آدمی کے لیے دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہو۔ مگر محققین نے لکھا ہے کہ تعدد واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت بھی مکرر نازل ہوئی ہو اور نہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی آیت جو پہلے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی بطور سند کے اس آدمی کے سامنے بھی تلاوت فرما دی۔
-
وَعَنْ اَبِی ذَرٍّاَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم خَرَجَ زَمَنَ الشِّتَآءِ وَالْوَرَقُ یَتَھَافَتُ فَاَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَۃٍ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ الْوَرَقُ یَتَھَا فَتُ قَالَ فَقَالَ یَا اَبَاذَرٍّ قُلْتُ لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلُ اﷲِ قَالَ اِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمْ لَیُصَلِّی الصَّلَاۃَ یُرِیْدُ بِھَا وَجْہَ اﷲِ فَتَھَا فَتُ عَنْہُ ذُنُوْبُہ، کَمَا تَھَافَتُ ھٰذَا الْوَرَقُ عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاڑے کے موسم میں جبکہ پت جھڑ کا وقت تھا باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں۔ راوی فرماتے ہیں کہ جس طرح حسب معمول پت جھڑ کے موسم میں کسی شاخ کو ہلانے سے پتے بہت زیادہ گرنے لگتے ہیں اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاخیں پکڑیں تو ان سے پتے جھڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، " ابوذر" میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بندہ مومن خالصًا اللہ کیلئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ بھی ایسے ہی جھڑتے ہیں، جس طرح اس درخت سے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح خالصاً اللہ تعالیٰ کیلئے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کسی کو دکھلانے یا کسی دوسری غرض و مقصد کے لیے نہ پڑھی جائے بلکہ محض اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فرمانبرداری اور اس کی رضا کی طلب کے لیے پڑھی جائے۔
-
وَعَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدِنِ الجُھَنِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّی سَجْدَ تَیْنِ لَا یَسْھُوْ فِیْھِمَا غَفَرَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت زید ابن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس آدمی نے دو رکعت نماز ( غافل ہو کر نہیں بلکہ اس درجہ حضوری قلب کے ساتھ ) پڑھیں کہ ان میں سہو نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔" (مسند احمد بن حنبل)
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِ و بْنِ الْعَاصِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہ، نُوْرًا وَبُرْھَانًا وَ نَجَاۃَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ لَّمْ یُحَافِظْ عَلَیْھَا لَمْ تَکُنْ لَہ، نُوْرًا وَلَا بُرْھَانَا وَلَا نَجَاۃً وَکَانَ یَوْمَ القِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ اُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ۔ (رواہ احمد بن حنبل و الدارمی والبیھقی فی شعب الایمان)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا ( یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو آدمی نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہوگی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی اور جو آدمی نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نماز نہ (ایمان کے) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی، نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی بلکہ ایسا آدمی قیامت کے روز قارون، فرعون ، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہوگا۔" (مسند احمد بن حنبل، دارمی، بیہقی) تشریح " نماز کی محافظت" کا مطلب یہ ہے کہ نماز باقاعدگی اور پوری پابندی سے پڑھی جائے۔ کبھی ناغہ نہ ہو، نیز نماز کے تمام فرائض واجبات سنن اور مستحبات اداء کیے جائیں، اس طرح جب کوئی نماز پڑھے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز کی محافظت کی اور یہ مذکورہ ثواب کا حقدار ہوگا اور جو آدمی اس کے برعکس عمل اختیار کرے گا کہ نہ تو نماز باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ پڑھے اور نہ نماز کے فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ان چیزوں کو ترک کرنے کی وجہ سے مذکورہ عذاب کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ نماز کی محافظت اور اس پر دوام اختیار کرنے کی کس قدر تاکید ہے اس لیے اس میں کوتاہی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔ نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ جب نماز کی محافظت نہ کرنے پر اس قدر و عید ہے کہ ایسے آدمی کا حشر مذکورہ لوگوں جیسے لعین و بد بخت کفار کے ساتھ ہونے کی خبر دی جا رہی ہے تو اس آدمی کا کیا حال ہوگا جو نماز ترک کرتا ہے اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔ قارون و فرعون جیسے مشہور لعین اور بد بختوں کو تو سب ہی جانتے ہیں۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا ابی بن خلف وہ مشہور مشرک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے دست مبارک سے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم رسید کیا تھا چنانچہ اسی وجہ سے اس لعین کو امت کے بد بختوں میں سے سب سے بڑا بد بخت کہا جاتا ہے۔ آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی محافظت کرے گا یعنی پورے خلوص اور تمام فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کے ساتھ نماز ہمیشہ پابندی سے پڑھتا رہے گا تو قیامت کو وہ انبیاء کرام ، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ہمراہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کی پابندی اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں۔
-
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ شَقِیْقٍ قَالَ کَانَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا یَرَوْنَ شَیْئًا مِنَ الْاَ عْمَالِ تُرْکَہ، کُفْرٌ غَیْرَ الصَّلَاۃِ۔ (رواہ الترمذی)-
" اور حضرت عبدا اللہ شقیق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال میں صرف نماز ہی ایسا عمل تھا جس کے چھوڑنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم صحابہ کرام کفر سمجھتے تھے۔" (جامع ترمذی ) تشریح یہاں جو حصر کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوائے نماز کے کسی دوسرے عمل کے چھوڑنے کو کفر نہ سمجھتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نہ صرف یہ کہ نماز چھوڑنا بڑے سخت گناہ کی بات تھی بلکہ وہ اسے کفر کے بہت قریب سمجھتے تھے۔
-
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ قَالَ اَوْصَانِی خَلِیْلِیْ اَنْ لَّا تُشْرِکَ بِاﷲِ شَیْئًا وَاَنْ قُطِّعْتَ وَ حُرِّقْتَ وَ لَا تَتْرُکَ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَھَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ الزِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبَ الخَمْرَ فَاِنَّھَا مِفْتَاحُ کُلٍّ شَرٍّ۔ (رواہ ابن ماجۃ)-
" اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے یہ وصیت (فرمائی تھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تمہیں جلا کیوں نہ دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا جس نے قصدًا نماز چھوڑ دی تو اس سے ذمہ بری ہو گیا نیز کبھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افضل بات کی تعلیم دی کہ اگر تم ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیے جاؤ تو شرک نہ کرنا، ورنہ تو جبر کی حالت میں جب کہ گردن تلوار کی زد میں ہو تو دل میں ایمان و ایقان کی پوری دولت لیے زبان سے کلمہ کفر ادا کرلینا جائز ہے۔ " ذمہ کے بری" ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے قصدًا نماز ترک کر دی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون و حکم سے بغاوت کی جس کی بناء پر اسلام کا عہد اس سے ختم ہوگیا اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ازراہ تغلیظ یعنی نماز چھوڑنے والے کے لیے انتہائی تہدید اور تنبیہ ہے۔ یا پھر (اس سے ذمہ بری ہوا ) کی مراد یہ ہے کہ ایمان لانے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ضمانت لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں اسے جو امان حاصل تھا اب وہ نماز کے ترک کی وجہ سے اسلام کی امان اور ضمانت سے نکل گیا۔ شراب کو تمام برائیوں کی کنجی اس لے فرمایا گیا ہے کہ شراب بنیادی طور پر انسان کے دل و دماغ اور ذہن و فکر کو بالکل ماؤف کر دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شراب پینے والا آدمی جب نشہ کی وجہ سے اپنی عقل سے ہاتھ دھو لیتا ہے تو دنیا بھر کی برائیاں اس سے سرزد ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے۔
-