TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
درود کی فضیلت
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍوَقَالَ مَنْ صَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاحِدَۃً صلی اللہ علیہ وسلم وَمَلَائِکَتُہ، سَبْعَیْنِ صَلَاۃً۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " جو آدمی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھجتا ہے اس پر اللہ اور اس کے فرشتے ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ ایک مرتبہ درود بھیجنے کا یہ ثواب جمعہ کے دن سے متعلق ہے اس لیے کہ یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز اعمال کا ثواب ستر گنا زیادہ ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حج اکبر (جو جمعہ کو ہوتا ہے) ستر حج کے برابر ہوتا ہے۔ اگرچہ حدیث موقوف ہے یعنی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے لیکن پھر بھی مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کے حکم میں ہے کیونکہ کوئی بھی صحابی اعمال کا ثواب از خود بیان نہیں کر سکتا جب تک وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن نہ لے اس لیے یقینی بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوگا۔
-
وَعَنْ رُوَیْفِعٍ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ صَلّٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَقَالَ اَللّٰہُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَجَبَتْ لَہ، شَفَاعَتِیْ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت رویفع رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور (درود بھیجنے کے بعد یہ بھی کہے) اَللّٰہُمَّ اَنْزِلْہُ الْمَقْعَدَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اے پروردگار ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر جگہ دے جو تیرے نزدیک مقرب ہے قیامت کے دن تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح " مقام مقرب" سے مراد مقام محمود ہے جہاں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر اللہ جل شانہ، کی ثنا و تعریف بیان فرمائیں گے اور بندوں کے حق میں شفاعت کریں گے۔ یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تمام مسلمانوں کے لیے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر امتی کے لیے شفاعت فرمائیں گے یہ نہیں ہوگا کہ کسی امتی کے لیے شفاعت فرمائیں اور کسی کے لیے نہیں پھر بھی اس آدمی کو (جو درود کے بعد مذکورہ دعا پڑھتا ہے ) ایک خاص درجہ حاصل ہوگا کہ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت واجب ہوگی۔ یا اس کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس ارشاد سے درحقیقت ایسے آدمی کے خاتمہ بالخیر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ آدمی حسن خاتمہ کی دولت سے نوازا جائے گا۔
-
وَعَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتّٰی دَخَلَ نَخْلًا فَسَجَدَ فَاَطَالَ السُّجُوْدَ حَتّٰی خَشِیْتُ اَنْ یَکُوْنَ اﷲُ تَعَالیٰ قَدْ تَوَفَّاہُ قَالَ فَجِئْتُ اَنْظُرُ فَرَفَعَ رَأْسَہ،، فَقَالَ مَالَکَ فَذَکَرْتُ لَہ، ذٰلِکَ قَالَ فَقَالَ اِنَّ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ لِیْ أَلَا أبْشِرُکَ اَنَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ لَکَ مَنْ صَلّٰی عَلَیْکَ صَلَاۃَ صَلَّیْتُ عَلَیْہِ وَمَنْ سَلَّمَ عَلَیْکَ سَلَّمْتُ عَلَیْہِ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد سے یا مکان سے) نکل کر کھجوروں کے ایک باغ میں داخل ہوگئے اور وہاں (بارگاہ خداوندی) میں) سجدہ ریز ہو گئے اور سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طول کیا کہ میں ڈرا کہ (خدانخواستہ) کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات تو نہیں دے دی، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے آیا کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں یا واصل بحق ہو چکے ہیںِ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری آہٹ پاکر) ( اپنا سر مبارک (زمین سے) اٹھایا اور فرمایا کہ " کیا ہوا ۔۔۔ ؟" (یعنی ایسی کیا بات پیش آگئی ہے جو تم پر اس قدر (گھبراہٹ اور غم کی علامت طاری ہے) تب میں نے صورت حال ذکر کی ( کہ نصیب دشمناں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ڈر ہی گیا تھا ) راوی فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے کہا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خوشی خبری نہ سنا دوں کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ جو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے گا میں اس پر رحمت بھیجوں گا اور جو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلام بھیجوں گا۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح امام احمد نے اپنی دوسری روایات میں آخر کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور سجدہ شکر کے سلسلہ میں اس سے زیادہ صحیح حدیث میری نظر میں نہیں ہے اور یہ روایت متعدد طریق سے مروی ہے۔
-